Wednesday, 19 June 2024

HAUNTED PLACES IN LAHORE - MASS BODIES FOUND IN LAHORE

 






HAUNTED PLACES IN LAHORE - MASS BODIES FOUND IN LAHORE - ARTICLE IN URDU:-


لاہور میں پراسرار اجتماعی لاشوں کی برآمدگی اپریل 2023۔

لاہور کی پراسرار لال حویلی


تعارف کے طور پر ایک بات بتاتے چلتے ہیں پاکستان کی مشہور عمارات میں جو لال لفظ استعمال ہوا ہے اس حوالے سے کراچی کی لال کوٹھی پراسرار اور ڈراؤنی مانی جاتی ہے۔ اس کا نام لال کوٹھی ہے۔ لال حویلی نہیں ہے۔ لال حویلی سب سے مشہور راولپنڈی کی شیخ رشید کی ہے۔ اس میں بھی جنات کا بسیرا ہے۔ اسی طرح لاہور کی بھی لال حویلی مشہور ہے۔ جس کو آرٹیکل میں لال کوٹھی کہہ دیا گیا ہے حالانکہ کوٹھی اور حویلی میں فرق  ہوتا ہے۔ حویلی مغلوں کے دور کی بنی عمارات میں سے ہوتی ہے یا انگریز دور کے۔ کوٹھی البتہ جدید دور کی بھی کہلاسکتی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ حویلی دراصل چونے کی بنی ہوتی ہے اور کوٹھی سیمنٹ کی۔بس یہی سب سے بڑا فرق ہوتا ہے حویلی اور کوٹھی میں۔






میلہ رام کے بیٹے رائے بہادر سرن داس تقسیم سے قبل متحدہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کا خاندان بحفاظت مشرقی پنجاب اور وہاں سے دہلی منتقل ہو گیا۔ اب یہ خاندان پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔سرن داس کی پڑپوتی نیلما لامبہ پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر ایس کے لامبا کی اہلیہ تھیں۔ سرن داس کی پڑپوتی کے بیٹے بیرن لکھنؤ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے نیلما لامبہ کی رائے بہادر سرن داس پر لکھی کتاب کا بتایا ہے۔چند ہفتوں میں دوبئی کے راستے یہ کتاب لاہور پہنچ جائے گی۔آزادی کا اعلان ہوا تو لال کوٹھی یعنی لال حویلی کے مکین موجود نہیں تھے۔ لوگوں نے برآمدوں اور صحن میں جو نادر اور قیمتی چیز نظر آئی لوٹ لی۔حکومت پاکستان نے سول ڈیفنس اور محکمہ شکار کو یہاں دفتر بنا دیے۔ شکار کی عدالتیں تو کمروں تک محدود تھیں‘ سول ڈیفنس والوں نے سارے سرسبز لان‘ تالاب‘ برآمدوں اور راہداریوں تک پر قبضہ کر لیا۔ اردگرد کے لوگوں نے بھی حویلی کے کچھ حصوں پر مکان بنا لئے۔ پیر سید مختار شاہ رضوی بتاتے ہیں کہ ان کے دادا ابوالبرکات سید احمد قادری کے گورنر امیر محمد خان سے اچھے مراسم تھے۔ان اچھے مراسم کی وجہ سے انہوں نے بعدازاں امیر محمد خان کے کہنے پر صدارتی انتخابات میں ایوب خان کی حمایت کی۔اسی لال کوٹھی لال حویلی میں ایوب خان کی حمایت کے لئے کئی اجلاس ہوئے۔ ابوالبرکات مسجد وزیر خان میں حزب الاحناف کا ادارہ چلا رہے تھے۔انہوں نے امیر محمد خان کو درخواست کی کہ لال کوٹھی ان کے ادارے کو الاٹ کر دی جائے۔ان دنوں حکومت نے اس کی نیلامی کا اعلان کر رکھا تھا۔1961ء میں نیلامی ہوئی تو ابوالبرکات نے 2 ایکڑ پر مشتمل لال کوٹھی ساڑھے چار لاکھ میں خرید لی۔ اس میں کچھ امیر محمد خان کے اثرورسوخ کا عمل دخل بھی تھا ورنہ قزلباش خاندان اسے خرید کر کربلا گامے شاہ کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔پیر مختار شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے پرانی کوٹھی کی واحد تصویر کھینچی۔وہ بچے تھے لیکن اتنی سمجھ رکھتے تھے کہ چیزوں کو شناخت کر سکیں۔ان کے بقول لال کوٹھی کی چھتیں دیار کی لکڑی سے بنائی گئی تھیں۔چھت کی بالائی سطح پر ٹائلیں تھیں۔ بیت الخلا مرکزی عمارت سے ہٹ کر بلند چھت والا تھا۔ اس کے اندر شیشے کا کیبن تھا۔لال کوٹھی کے احاطے میں کاٹن مل کے مزدوروں کو لانے لے جانے والی ایک لاری کھڑی تھی جس کا ہارن بجا کر پیر مختار شاہ اور ان کے دوسرے بہن بھائی تفریح طبع کا سامان کرتے۔یہ لاری مختار شاہ رضوی صاحب کے خاندان نے  500 روپے میں فروخت کر دی۔ پیر مختار شاہ رضوی کے خاندان کو لال کوٹھی کا قبضہ لینے کے لئے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ سول ڈیفنس والے حیلہ بازی کر رہے تھے۔ احاطے میں  300 مہاجر خاندان آ کر بیٹھ گئے تھے۔ کچھ اردگرد کے لوگوں نے تعمیرات کر لیں۔لوگوں نے درخت کاٹ لئے۔پھر بھی یہاں برگد کا ایک بڑا درخت‘ شہتوت‘ آم اور دوسرے کافی درخت موجود تھے۔لال کوٹھی کا قبضہ ملنے کے بعد پیر مختار شاہ رضوی بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کو یہاں ایک بند کمرے سے لوہے کی دو بڑی سیف ملیں۔ان کو کسی نے نہیں کھولا تھا۔بہت وزنی تھیں اس لئے چین کپی کے ذریعے باہر نکالی گئیں‘ کئی روز تک ہتھوڑوں سے خود پیر مختار شاہ نے ان کے دروازے توڑے۔اندر سے پٹاریاں نکلیں۔جن میں سانپ یا زیور نہیں تھا۔بہت سی رجسٹریاں اور اسٹامپ پیپر نکلے جو لاہور میں میلہ رام کی جائیدادوں سے متعلق تھے۔کسی نومولود بچے کے بالوں کی جھنڈ رکھی ہوئی تھیں۔دلہن کا سرخ رنگ کا غرارہ سیٹ تھا جس پر چاندی کا کام ہوا تھا۔چیک بکس نکلیں۔ سرن دان اس قدر امیر تھے کہ اس زمانے میں ان کے چیک 50 ہزار اور ایک لاکھ سے کم نہ تھے۔ایک فریم میں لگی تصویر تھی جس کے نیچے ببا سنگھ لکھا تھا۔ایک کتاب ان الماریوں سے ملی جس پر ’’ویسٹ منسٹر ہال‘‘ لکھا تھا۔کاما سوتر کی ایک رنگین کتاب تھی۔تمام تصویریں ہاتھ سے بنائی گئی تھیں۔اخبارات اور رسالوں کا ڈھیر نکلا۔دو ڈائریاں ملیں۔ایک میں لکھا تھا کہ ’’رشتے کے لئے کشمیر کے مہاراجہ کے ہاں گئے‘‘۔ پیر مختار شاہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ناسمجھی میں وہ اور ان کے خاندان نے بہت سی چیزیں ضائع کر دیں۔ والدہ نے غرارہ کسی کو دیدیا‘ اخبارات، اسٹامپ پیپر اور کاغذات ردی میں اٹھوا دئیے۔ بھائی نے 1989ء میں کاما سوتر کی کتاب 45 ہزار میں کسی کو فروخت کی۔دہلی دربار سے ملنے والے کا نسی کے میڈل اور فوارے فروخت ہوئے۔ کچھ دوستوں اور ملنے والوں کو تحفہ میں دیدیے۔ ایک فوارہ لاہور میوزیم کو دیا گیا جو بعد میں وہاں سے غائب ہو گیا۔لال کوٹھی کے ساتھ جو کاٹن مل تھی وہ ایمبیسڈر ہوٹل والے محمد امین نے خرید لی۔ دربار سید معصوم کے ساتھ کچھ جگہ ماضی کے معروف اداکار بھا اسماعیل نے خرید لی۔ داتا دربار کے سامنے میلہ رام کا سینما تھا۔پائلٹ ہوٹل والی جگہ پر اس کا کوئلے کا گودام تھا۔یہاں میاں محرم علی نے پہلے پائلٹ سوڈا کا کارخانہ لگایا۔ لال کوٹھی کے سامنے کی جگہ 1971ء میں ایکوائر ہوئی تو رضوی خاندان کو اس کے 60 ہزار روپے ملے۔ دس سال پہلے فلائی اوور بنا تو میٹرو بس کے لئے مزید  6 مرلے حکومت نے لے لئے۔جس کے 80 لاکھ دیے گئے۔ مختار شاہ رضوی بتاتے ہیں کہ سرن داس نے بیٹی کی شادی لارنس گارڈن کے لیڈی گارڈن میں کی۔ اس شادی کے کھانوں کا مینیو چھپا ہوا ملا۔جس میں ٹوٹی فروٹی‘ رشین سلاد اور سوپ شامل تھا۔ہرن کے ناف میں بند کستوری ملی جو 1985ء میں سمن آباد کے مولانا محمد شریف بدر نے 1800 میں خریدی۔ایک لکڑی کا چھوٹا باکس نکلا۔ گلہڑ‘ چیل ٹاہلی اور بوڑھ کے درخت کٹ چکے۔ اب حزب الاحناف کے طالبعلم یہاں سارا دن درس لیتے ہیں۔شاید وہ جانتے تک نہیں کہ اس جگہ لاہور شہر کی زندگی کبھی سانس لیتی تھی۔  میں لاہور کی تاریخی ڈراؤنی حویلیوں کی معلومات کے حوالے سے کام شروع کر چکا ہوں۔ابتدا میلہ رام کی لال کوٹھی یعنی لال حویلی سے کی۔کربلا گامے شاہ کی دیوار سے ملحق حزب الاحناف ہے۔ دینی تعلیم کا یہ ادارہ غازی علم الدین شہید کی نماز جنازہ پڑھانے والے سید دیدار شاہ کے فرزند ابوالبرکات سید احمد قادری نے قائم کیا۔حزب الاحناف کے موجودہ مہتمم مصطفی رضوی ہیں۔ ان کے بھائی پیر مختار شاہ رضوی سے ملاقات طے پائی۔ مختار شاہ صاحب خود لاہور میں سیاسی و دینی سرگرمیوں کی تاریخ ہیں۔ان کے پاس کئی طرح کی معلومات ہیں جنہیں تاریخ کا ریکارڈ ہونا چاہئے۔ حزب الاحناف کی عمارت رائے بہادر میلہ رام کی لال کوٹھی لال حویلی میں قائم ہوئی۔ یہ لال کوٹھی یعنی لال حویلی لاہور کی کاروباری ، ثقافتی اور علمی تاریخ کا مرکز رہی ہے۔ یہاں اپنے عہد کے نامور گانے والے ، سیاستدان اور فاضل لوگ رائے بہادر کے مہمان ہوا کرتے۔ علامہ اقبال کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ان محافل کا حصہ رہے ہیں۔ یہ موضوع کئی حوالوں سے بھر پور ہے۔ ایک حوالے نے میرا سر چکرا دیا۔پیر مختار شاہ صاحب نے بتایا کہ داتا دربار روڈ پر کربلا گامے شاہ کی گلی کے ساتھ 2006ء میں انہوں نے پلازہ بنانے کیلئے کھدائی کرائی۔آٹھ فٹ تک بنیادیں کھودی گئیں۔تعمیراتی مزدور یہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے کہ کھدائی کے دوران بنیادوں اور بیسمنٹ والی جگہ کے نیچے سے بہت سے انسانی ڈھانچے نکل رہے تھے۔ شاہ صاحب کے بقول تمام لاشیں بالغ افراد کی معلوم ہوتی تھیں۔لاشوں کے اوپر ملتانی مٹی جیسی ایک تہہ سی تھی۔ یہ لاشیں قبروں میں نہیں تھی بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہیں کسی جگہ لٹا کر ایک ہی بار سب پر مٹی ڈال دی گئی۔  میلہ رام کا خاندان تقسیم کے وقت بھارت چلا گیا تھا۔ اس خاندان کو نقل مکانی کے دوران کوئی دقت نہیں ہوئی۔دستیاب شواہد کے مطابق میلہ رام کے خاندان کا کوئی فرد یا ملازم تقسیم کے فسادات میں قتل نہیں ہوا، انکے خاندان کے جو لوگ بھارت منتقل ہوئے وہ بھی کسی طرح کے خون خرابے کا ذکر نہیں کرتے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتنی ساری لاشیں کن لوگوں کی تھیں۔ سب سے پہلے میلہ رام سے قبل اس جگہ کی شناخت کا معاملہ تھا۔میلہ رام کی شخصیت‘ خاندان اور لاہور میں ان کی یادگاروں کے متعلق آئندہ بات ہوئی تو ہو گی ۔ابھی مجھے صرف ان لاشوں کا معمہ حل کرنا تھا۔جس قدر حوالے میرے پاس موجود تھے ان کی چھان بین سے لاہور کے اس حصے میں بہت بڑی قتل و غارت کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ہاں بیرون بھاٹی و لوہاری گیٹ کئی جنگیں ہوئی ہیں لیکن اگر یہ لاشیں سپاہیوں کی ہوتیں تو لاشوں کے ساتھ کوئی ہتھیار یا اس نوع کی دھاتی چیزیں بھی ملتیں۔ پیر مختار شاہ صاحب سے میں نے اس تعمیراتی ٹھیکیدار کا نمبر لیا جس نے یہاں کھدائی کی تھی۔احمد بھٹی نے بتایا کہ انہوں نے کرینوں سے کھدائی کی۔لاشیں ایک تہہ کی صورت میں پڑی تھیں۔ نیچے کی مٹی دریائی گھسو تھی۔ میں نے پوچھا کوئی کپڑا‘ زیور یا دیگر چیز ملی؟ ٹھیکیدار نے نفی میں جواب دیا۔اس کا کہنا ہے کہ اگر اس علاقے میں آج بھی مناسب انداز سے کھدائی کی جا سکے تو ایسے ڈھانچے مل سکتے ہیں۔ٹھیکیدار نے بتایا کہ ڈھانچوں کی تعداد 50 سے 60 تک تھی اور ان میں کوئی بچے کا نہیں تھا۔پنجاب میں تین نسل پہلے تک مرد زیور پہنا کرتے تھے، کان میں نتیاں، ہاتھ میں کڑا اور انگوٹھی عام تھی۔ صرف معمول کے تدفینی عمل میں لاش کا زیور اتار لیا جاتا ہے۔ نقوش کے لاہور نمبر میں بیرون بھاٹی دروازہ محلہ شیخ اشرف کا ذکر ہے۔تفصیل بتائی گئی ہے کہ موجودہ ضلع کچہری کی طرف آتے ہوئے یہاں ایک محلہ آباد تھا۔اس محلے میں اورنگزیب کے دور میں ایک مشہور عامل شیخ اشرف رہتے تھے۔انہوں نے یہاں ایک عالی شان مسجد اور رہائشی مکانات بنوائے۔اس لئے اس بستی کا نام محلہ شیخ اشرف مشہور ہوا۔وفات کے بعد ان کی قبر اسی جگہ بنائی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس جگہ خندق تعمیر کرنے کے لئے اس مسجد و مکانات کو بارود سے اڑا دیا۔شیخ اشرف کی لاش نکال کر میانی صاحب قبرستان میں دفن کر دی گئی۔کنہیا لال ہندی کی ’’تاریخ لاہور‘‘ میں اس کا نام شاہ شرف کا محلہ لکھا ہے۔اس محلے کا مقام بتاتے ہوئے کنہیا لال کہتے ہیں کہ "بھاٹی دروازے سے لے کر ضلع لاہور کی کچہری و برف خانے تک اس کی آبادی تھی۔غارت گروں نے اس محلے پر بار بار حملہ کیا۔ ہر بار لوگوں کو مارتے اور دولت لوٹ لیتے"۔ رنجیت سنگھ نے اقتدار سنبھالا تو اہل لاہور کو امن ملا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دفاعی ضرورت کے تحت بھاٹی دروازے کے سامنے میدان کھلا کرنے کا حکم دیا تو مسجد و مقبرہ دونوں گرا دیے گئے۔شاہ شرف کی لاش فقیر عزیز الدین کی نگرانی میں احاطہ مزار حاجی محمد سعید میں بہ مقام رولا واڑی میانی صاحب دفنایا گیا۔مہاراجہ نے مزار کی یادگار کے طور پر نابود کئے گئے محلے میں ایک چھوٹا سا چبوترہ پختہ بنا دیا۔اس مسجد و مقبرے کی پختہ بنیادیں انگریز دور تک موجود تھیں۔ ٹھیکیدار احمد بھٹی نے کھدائی کے دوران کچھ مضبوط بنیادیں ملنے کا بتایا۔ممکن ہے وہ اس مسجد اور مقبرے کی ہوں۔





لاہور میں اجتماعی تدفین کے دو بڑے مقامات ہیں ایک شاہی قلعہ کے مشرقی جانب جہاں غزنوی حکمرانوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں جنگ ہوئی اور دو ہزار لوگ مارے گئے۔ان کو یہاں دفن کر کے اوپر ایک قبر بنا دی گئی۔ دوسرا مقام لنڈا بازار میں ہے۔ شاہ شرف کی مسجد و مقبرہ عالمگیری عمارات تھیں۔مسجد و مقبرے کے گنبدوں پر سنگ مر مر لگا تھا۔ بیرونی دیواریں سنگ سرخ کی تھیں۔اندرونی عمارت کاسنی کار تھی۔ تحقیقا ت چشتی میں کنہیا لال کے لکھے نام کو غلط بتایا گیا ہے۔


 مفتی غلام سرور نے شیخ اشرف کا قطعہ تاریخ یوں لکھا ہے:


چو اشرف برفت از جہاں فنا…نہاں شد یکے آفتاب شرف چو جسم زدل سالِ ترحیلِ او…عیاں شد یکے آفتاب شرف۔


غارت گروں کے دور میں محلہ اجڑا تو یہاں بھنگیوں نے ٹھکانہ بنا لیا۔لاشوں کا معاملہ سلجھتے سلجھتے پھر الجھ گیا کہ درگاہی محلہ ہال روڈ کے قریب ہے جہاں کی سیدانیوں نے سکھ غارت گروں کے خوف سے اجتماعی خودکشی کر لی تھی۔ یوں لاہور کی لال حویلی کی کہانی تیار ہوئی اور پراسرار لاشوں کی برآمدگی اپریل 2023ء میں ہوئی۔ اس وجہ سے بھی اکثر عمارتیں یا حویلیاں آسیبی بن جاتی ہیں۔



No comments:

Post a Comment